بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ الاسراء کی آیات 28 تا 38 میں اللہ نے اخلاقی، سماجی اور قانونی تعلیمات کا ایک مجموعہ بیان کیا ہے جو درحقیقت "صحت مند طرز زندگی کا منشور" ہے۔ سورت کے اس حصے میں، انسان کو سفارشات کے ایک مجموعے کا سامنا ہے جو مالی اور خاندانی تعلقات کو منظم کرنے سے لے کر مجرمانہ اور اخلاقی مسائل تک پر مشتمل ہے۔
بخشش اور خرچ میں اعتدال (میانہ روی)
اللہ تعالی آیت 28 میں ارشاد فرماتا ہے:
"وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُوراً؛
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت کی طلب میں جس کی تمہیں امید ہے، ان کی طرف سے بے توجہی اختیار کرنا چاہو، تو ان سے ملائم انداز میں گفتگو کرو۔"
آیت 28 تلقین کرتی ہے کہ اگر تم ضرورت مندوں کی مدد کرنے سے قاصر ہو تو کم از کم مہربانی کے ساتھ، امید بھرے الفاظ سے ان کی حوصلہ افزائی کرو۔ قرآن نے یہاں انسانی وقار پر زور دیا ہے۔ یعنی غربت میں بھی کسی کو ذلیل یا مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اگلی آیت میں تنبیہ کی ہے کہ خرچ کرنے میں نہ اسراف اور نہ بخل بلکہ "اعتدال" اور بنیادی بنیادی اصول کے طور پر اپناؤ۔
آیت 29 میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً؛
اور نہ رکھو اپنے ہاتھ کو بندھا ہؤا اپنی گردن سے اور نہ ہی اسے بالکل پھیلا کر رکھو، کہ اس لعنت ملامت سے دوچار اور رنج و حسرت میں مبتلا ہو کر بیٹھو۔"
اس آیت کی خوبصورت اور قطعی تعبیر ـ کہ "فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں" ـ سے معلوم ہوتا ہے کہ خرچ کرنے میں زیادہ روی، نہ صرف مالی خرابی ہے بلکہ ایک قسم کی روحانی اور اخلاقی انحراف بھی ہے جو انسان کو بندگی کے راستے سے نکال دیتی ہے۔
آیت 30 میں خدائے متعال ارشاد فرماتا ہے:
"إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً؛
یقینا تمہارا پروردگار روزی کے در کھول دیتا ہے جس کے لئے وہ چاہتا ہے؛ اور [جسے چاہتا ہے] تنگی میں مبتلا کرتا ہے، یقینا وہ اپنے بندوں سے خوب باخبر ہے، اچھی طرح دیکھنے والا۔"
خاندان اور بچوں کی ذمہ داری
سورہ 31 میں ارشاد ربانی ہے:
"وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءاً كَبِيراً؛
اور فقر اور بھوک کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل مت کرو۔ 'ہم ہی انہیں اور تمہیں روزی عطا کرتے ہیں'، یقینا ان کو قتل کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔"
اس آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کو غربت کے مارے قتل نہ کرو، صرف ان کو نہیں بلکہ تم کو بھی، ہم روزی دیتے ہیں۔ یہ ایک جاہلی رسم کا جواب ہے؛ کیونکہ دور جاہلیت میں عربوں میں غربت یا مستقبل کے خوف کی وجہ سے بچوں کا قتل ایک رواج تھا۔ قرآن کریم آفاق و انفس کے لئے ہے، اس کا پیغام بھی قیامت تک کے لئے ہے چنانچہ اس آیت کا پیغام آج بھی زندہ ہے؛ اور تاکید کرتی ہے کہ مستقبل کے خوف یا معاشی دباؤ سے ایسے فیصلے نہ کرو جو انسان کے وقار یا اس کی زندگی پر سوالیہ نشان کے متراف ہوں۔
وہ گناہ جو ترقی کا نشوونما کا راستہ روک دیتے ہیں
زنا کی شرمناکی اور اس کے آثار
آیت 32 میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً؛
"اور زنا و حرام کاری کے قریب نہ جاؤ، کیونکہ وہ ایک شرمناک گناہ اور بری روش ہے"۔
اس آیت میں اس برے عمل کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے کیونکہ اس کے قریب جانا ہی اگلے گناہوں کا سبب بنتا ہے، چنانچہ ہر اس وسیلے سے پرہیز کرنا چاہئے، جو انسان کو اس کے قریب لے جاتا ہے، نظر سے ٹیلی فون، سوشل میڈیا وغیرہ وغیرہ اس کے قریب لے جانے کے وسائل بن سکتے ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہؤا ہے کہ زنا پچھلی امتوں میں بھی حرام تھا "كانَ فاحِشَةً" اور ہمیشہ کے لئے حرام رہے گا۔۔ اور یہ برا راستہ ہے "ساء سبیلا"۔
اس قبیح عمل سے پرہیز پر اپنی تاکید اس لئے ہوئی ہے کہ ناجائز جنسی تعلقات (زنا) بہت سے ذاتی، سماجی اور خاندانی برائیوں اور نقصانات کا باعث بنتے ہیں؛ اسی لئے یہ اللہ کے دین میں حرام ہے، اور قرآن پاک میں اس کا تذکرہ شرک، قتل اور چوری کے ساتھ آیا ہے۔ یہ بہت سے تنازعات، خودکشیوں، گھر سے بھاگنے، ناجائز اولاد، جنسی اور جلدی بیماریوں اور معزز خاندانوں کی عزت و آبرو کی تباہی کا ذریعہ ہے۔
مزید برآں، اللہ تعالیٰ قتلِ نفس کو سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک قرار دیتا ہے اور (آیت 33 میں) فرماتا ہے:
"وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَاناً فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُوراً؛
اور قتل نہ کرو اس جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے مگر کسی حق کی بنا پر؛ اور جو مظلومیت کے ساتھ مارا جائے، ہم نے اس کے وارث کو قابو (حق و حجت) عطا کیا ہے تو وہ قتل (قصاص) میں حد سے آگے نہ بڑھے؛ یقینا ان (مقتول اور اس کے ورثاء) کی (شریعت کی طرف سے) مدد ہوئی ہے۔"
تفسیر میں کہا گیا ہے کہ یہاں 'حق' کے معنی 'الٰہی قانون کے دائرے میں حق و عدل کا نفاذ' ہے، جیسے قصاص یا جائز دفاعی کاروائی۔ یہ آیت قانونِ قصاص کا تعارف ہے۔
آیت 33 جرم و انصاف کے میدان میں سب سے اہم آیات میں سے ایک ہے۔
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو جو شخص ناحق مارا جائے، اللہ نے اس کے وارثوں کو تعاقب اور قصاص کا حق عطا کیا ہے، لیکن اسے قتل میں زیادتی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ قانون و شریعت اس کا حامی ہے۔
یہ آیت اسلام میں قانونِ قصاص کی بنیاد ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ عدل کی حدود کو بھی واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ قرآن خون کی ہوس کو اندھے تشدد یا ذاتی انتقام میں بدلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مفسرین نے کہا ہے کہ "قتل میں زیادتی یا زیادہ روی" کا مطلب یہ ہے قاتل سے زیادہ قتل کرنا، اذیت دینا یا شریعت کی حدود سے باہر نکلنا۔ یہ حد قصاص کو انتقامی کاروائی سے ممتاز کر دیتی ہے اور اسے انصاف اور سماجی امن کے تحفظ کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔
قصاص، جو عدل و عفو کے ساتھ خوبصورت بن جاتا ہے
دوسری طرف، قرآن نے دوسری آیات میں عفو و درگذر کی تلقین فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ بہتر ہے کہ مقتول کا وارث معاف کر دے اور خون کے بدلے معاوضہ لے لے۔
جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 78 میں ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۔۔۔ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ؛
اے ایمان والو تم پر ان کے بارے میں جو مار ڈالے گئے ہوں قصاص لکھ دیا گیا ہے۔۔۔ ہاں جس کے لئے اس کے [دینی] بھائی کی طرف سے بخشش ہو جائے تو پیچھا کیا جائے اچھے عنوان سے اور [دیت کی] ادائیگی بھی ہو خوش معاملگی کے ساتھ۔؛ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک سہولت اور مہربانی ہے۔"
قانونِ قصاص ایک طرف مظلوم کے حق کو قائم کرتا ہے اور دوسری طرف رحمت اور بخشش کے دروازے کھولتا ہے تاکہ معاشرہ عدل اور انسانیت کے درمیان توازن قائم کر سکے۔
سماجی حقوق اور انفرادی اخلاقیات کی رعایت
آیت 34 میں ارشاد الٰہی ہے:
"وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً؛
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ [یتیم] اپنے سنِ تمیز کو پہنچے اور عہد کو پورا کرو۔ عہد کے متعلق یقینا جواب دہی ہو گی۔"
اس آیت میں ارشاد ہؤا ہے کہ وہ طفل جس کا باپ دنیا سے رخصت ہؤا ہے، اس کے مال میں تصرف تو درکنار، اس کے قریب بھی نہ جاؤ، جس طرح کہ آیت 32 میں حرام کاری کے قریب جانے سے باز رکھا گیا ہے۔۔ اس آیت میں مال یتیم میں تصرف کا حق، صرف یتیم بچے کی تربیت اور پالنے کی حد تک، دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ عقل و تمیز کی حد تک پہنچ جائے۔ اور تم اس عہد و پیمان کی وفا کرو جو تمہارے اور پروردگار کے درمیان ہے اور اس عہد کی وفا کرو جو تمہارے اور اللہ کے دوسرے بندوں کے درمیان ہے۔ کیونکہ اللہ روز قیامت سے عہد و پیمان کرنے والے سے پوچھے گا کہ کیا اس نے عہد کی وفا کی ہے یا نہیں، اگر اس نے وفا کی ہے تو اس کو انعام دے گا اور اگر نہیں تو اسے سزا دیتا ہے۔
آیت 34 کے بعد، اخلاقی سفارشات کا ایک سلسلہ پیش کیا گیا ہے: وعدوں کی پاسداری، کم فروشی سے بچنا، اعتماد برقرار رکھنا، اور عدل و انصاف پر قائم رہنا۔
مزید برآں، آیت 35 لین دین میں صحیح وزن اور پیمائش کی ہدایت کرتی ہے، کیونکہ معیشت میں انصاف سماجی اعتماد کی بنیاد ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:
"وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً؛
اور جب ناپو تولو تو ناپ پوری کرو اور ٹھیک ترازو سے تولو، یہ بہتر اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھی بات ہے۔"
لفظ "قسطاس" دو الفاظ "قسط" اور "طاس" کا مجموعہ ہے؛ قسط کے معنی"انصاف" اور "طاس" کے معنی "پیمانہ اور ترازو" کے ہیں۔ تجارت اور لین دین میں لوگوں کے حقوق کا احترام کرنے کے مسائل اس قدر اہم ہیں کہ قرآن نے کئی بار اس پر زور دیا ہے اور قرآن کی سب سے بڑی آیت اسی سے متعلق ہے اور ایک سورہ "مطففین" اسی کا آغاز اسی موضوع سے ہوتا ہے۔ بعض انبیاء کی پہلی دعوت، جیسے کہ حضرت شعیب، کا ابتدائی مشن ہی کم فروشی سے باز رکھنا تھا۔
غرور بہت سی غلطیوں کی جڑ
اس مجموعے کی آخری آیات (36-38) ایک اندرونی مسئلے پر بحث کرتی ہیں:
"وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً * وَلاَ تَمْشِ فِي الأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً * كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيٍّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهاً؛
اور ایسی بات کی پیروی نہ کرو جس کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے، یقینا کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز کے متعلق جواب دہی ہو گی * اور نہ چلو زمین میں اٹھلاتے ہوئے، کیونکہ بلاشبہ تم ہر گز زمین کو پھاڑ نہیں سکتے ہو اور ہرگزبلندی میں پہاڑوں تک نہیں پہنچ سکتے ہو * یہ سب باتیں وہ ہیں جن کی ناہنجاریاں اللہ کو ناپسند ہیں۔"
غرور، تکبر اور خود غرضی پر قابو پانا۔ اللہ تعالی خبردار کرتا ہے کہ "اس چیز کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں" اور "زمین پر اکڑ کر نہ چلنا"۔ یہ آیات بظاہر سادہ سے احکام پر مشتمل ہیں، لیکن جب ان تشریح کی جائے تو ان کا مطلب بہت گہرا ہے۔ یعنی مؤمن کو چاہئے کہ وہ اپنی عقل اور علم کو اخلاق کا معیار بنائے نہ کہ جذبات یا اندھی تقلید کی۔ تکبر، جہالت اور خود غرضی انسان میں انحراف کی تین بنیادی جڑیں ہیں۔
متوازن معاشرے کا واضح راستہ
سورہ اسراء کی آیات 28-38 ایک مثالی معاشرے کا مکمل خاکہ پیش کرتی ہیں جس میں انسانی تعلقات وقار، انصاف اور اعتدال پر پر استوار ہوتے ہیں۔ معاشیات سے لے کر خاندانی اخلاقیات تک، قانونِ قصاص سے لے کر تکبر سے بچنے تک، ان سب کا ایک مشترکہ مقصد ہے: ایک ایسے انسان کی تعمیر جو خدا، خود اور دوسروں کے سامنے مسئول، جواب دہ اور ذمہ دار ہو۔
قرآن مجید کے صفحہ 285 پر موجود ان آیات کی تلاوت کریں اور سنیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ